وہ شہر محبت جہاں مصطفٰی ہیں
وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر وہ چاندی سی مٹی
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
جو پوچھا نبی نے کہ کچھ گھر بھی چھوڑا
تو صدیق اکبر کے ہونٹوں پہ آیا
یہاں مال و دولت کی کیا ہے حقیقت
جہاں جاں لٹانے کو جی چاہتا ہے
جہاد محبت کی آواز گونجی
کہا حنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی
اجازت اگر دو تو جام شہادت
لبوں سے لگانے کو جی چاہتا ہے
ستاروں سے چاند کہتا ہے ہر دم
تمہیں کیا بتاؤں وہ ٹکڑوں کا عالَم
اشارے میں آقا کے اتنا مزا تھا
کہ پھر ٹوٹ جانے کو جی چاہتا ہے
وہ ننہا سا اصغر جو ایڑی رگڑ کر
یہی کہ رہا تھا وہ خیمے میں رو کر
اے بابا میں پانی کا پیاسا نہیں ہوں
میرا رن میں جانے کو جی چاہتا ہے
جو دیکھا ہے روئے جمال رسالت
تو طاہر عمر مصطفٰی سے یہ بولے
بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب
غلامی میں آنے کو جی چاہتا ہے
No comments:
Post a Comment